Live Traffic Feed

Tuesday, April 2, 2019

Ehamm Baat

اہم بات ✋🏻🇵🇰 

ایک آدمی کی پرچون کی دکان تھی

 جس کا سالانہ خرچہ دو لاکھ اور آمدن نوے ہزار تھی، 

یعنی ایک لاکھ دس ہزار روپے کا خسارہ

دکان کیلئے مختلف ڈسٹری بیوٹرز سے کریڈٹ پر مال اٹھایا گیا تھا جو کہ تقریباً ساٹھ ہزار روپے بنتا تھا جسے پانچ ماہ میں واپس کرنا تھا

دکان کی روزانہ کی سیل بائیس سو روپے تھی جبکہ روزانہ کے خرچوں کیلئے بیس ہزار روپے کیش فلُو میں موجود ہوا کرتے تھے۔ 

اس شخص نے وہ دکان پانچ سال کیلئے ایک تجربے کار شخص کو ٹھیکے پر دے دی۔ 

پانچ سال بعد دکان پر کل قرضہ ساٹھ ہزار سے بڑھ کر چورانوے ہزار ہوچکا تھا۔

 روزانہ کی سیل بائیس سو سے کم ہو کر اٹھارہ سو پر آچکی تھی۔ 

کیش فلو میں موجود رقم بھی کم ہو کر چودہ ہزار رہ گئی تھی۔ 

سالانہ خرچے بڑھ کر پونے تین لاکھ جبکہ آمدن سوا لاکھ ہوچکی تھی، 

یوں دکان کا خسارہ بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ہوچکا تھا۔

 دکان کے مالک نے جب کھاتے چیک کئے تو سٹپٹا کر رہ گیا۔ 

جسے ٹھیکے پر دکا دی تھی ، اس سے پوچھا کہ قرضے میں اضافہ اور آمدن میں کمی کیوں ہوئی؟ 

ٹھیکے والے نے جواب دیا: میں نے تمہاری دکان کے باہر پرانا بورڈ تبدیل کروا کر اس کی جگہ مہنگا بورڈ لگوایا، 

اندر بیٹھنے کیلئے نئی کرسی اور ٹیبل خریدا،

 ہر تین ماہ بعد دکان کا فرش اکھاڑ کر اس کی جگہ نئی ٹائلیں لگوائیں۔۔۔

 دکان خسارے میں تو آگئی لیکن ذرا اندر جا کر بیٹھ کر تو دیکھو، 

مزہ نہ آئے تو پھر کہنا۔ 

بعد میں پتہ چلا کہ دکان کی توہین و آرائش کیلئے بھی اس شخص نے اپنی ہی کمپنی کو استعمال کیا اور وہاں سے بھی اپنے نوٹ کھرے کئے۔ 

کچھ ایسا ہی معاملہ ن لیگ اور پی پی پی دورحکومت کا بھی ہے۔ 

غیرملکی قرضہ ساٹھ ارب ڈالر سے چورانوے ارب ڈالر، ایکسپورٹس بائیس ارب ڈالر سے کم ہوکر اٹھارہ ارب ڈالرز رہ گئیں،بجٹ خسارہ سوا کھرب ہوگیا،

 اور جب کارکردگی کا پوچھا جائے تو مہنگے اور بے مقصد منصوبوں کا حوالہ دینا شروع کردیتے ہیں، 

جن سے دونوں خاندانوں نے اربوں نوٹ چھاپے۔ 

اب آپ ہی بتائیں،

 دکان کے مالک کو اپنی دکان چلانے کیلئے زیادہ مشکلات اٹھانی پڑیں گی یا کم؟ 

نوازشریف ، زرداری اور انکے حواریوں کی بے غیرتیوں اور موجودہ حکومت کی مشکلات کو اس سے زیادہ سادہ طریقے سے سمجھانا ممکن نہیں۔ 

پر اگر کوئ سمجھنا چاہے تو 😞

No comments:

Post a Comment

Thanks For Comments